۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
آیت اللہ جوادی آملی

حوزہ/ مرجع تقلید آیت اللہ العظمٰی عبداللہ جوادی آمُلی نے اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی جنرل اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے اختتامی نشست کے لئے ویڈیو پیغام جاری کرکے عقلیت، عدل اور کرامت [وقار] کے بارے میں کہا: عقلیت شجرۂ طوبیٰ ہے اور عدل و کرامت اس کے پھل ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرجع تقلید آیت اللہ العظمٰی عبداللہ جوادی آمُلی نے اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی جنرل اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے اختتامی نشست کے لئے ویڈیو پیغام جاری کرکے عقلیت، عدل اور کرامت [وقار] کے بارے میں کہا: عقلیت شجرۂ طوبیٰ ہے اور عدل و کرامت اس کے پھل ہیں۔

انھوں نے عقل کے بارے میں کہا: عقل کی دو قسمیں ہیں: نظری عقل اور عملی عقل۔ نظر عقل متولی، راہبر، ولی اور صاحب فکر ہے۔ نظری عقل نظری حکمت کی قیادت بھی کرتی ہے اور عملی حکمت کی زعامت بھی۔

آیت اللہ العظمٰی عبداللہ جوادی آمُلی نے کہا: عملی عقل کا تعلق نیت، عزم اور ارادے وغیرہ سے ہے۔ عملی عقل محرکات کی راہبری کرتی ہے اور اس پر ولایت و زعامت رکھتی ہے اور فکر سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ اگر ہم ان دو کے درمیان سرحد کا تعین کرنا چاہیں تو دیکھتے ہیں کہ ایک کام معقول ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ معصیت و گناہ بھی ہے، کیونکہ فیصلہ کرنے والی عقل، عملی عقل ہے؛ ممکن ہے کہ انسان ایک بات کو 100٪ سمجھ لے لیکن اس پر عمل نہ کرے۔ آل فرعون کو یقین تھا [اور سمجھ گئے تھے] کہ موسیٰ (علیہ السلام) نبی ہیں لیکن انھوں نے ان کی پیروی نہیں کی۔

انھوں نے مزید کہا: قرآن میں "یعقلون" کا ذکر ہے کہ عقل کی حرمت کے میں سے نہیں ہے۔ جس مقام پر کام حتمی ہے اور عقلیت کو چوٹی تک پہنچا دیتا ہے؛ وہ سورہ نساء کے آخر میں ہے؛ جہاں ارشاد ہؤا: "رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرِينَ؛ ہم نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے پیغمبر بھیجے۔ (نساء - 165) ہمارے پاس نہ صرف اللہ سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کے برابر بھی کچھ نہیں ہے۔ خدا یعنی سب سے بڑی ہستی۔ لیکن عقل اللہ کے ساتھ کٹ حجتی کر سکتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے انبیاء (علیہم السلام) کو بھیجا تاکہ عقل خدا کے ساتھ کٹ حجتی نہ کرے۔ اگر انبیاء نہ ہوتے تو اس آیت کے مطابق عقل خدا کے مقابل حجت لاتی کہ: "تو جب جانتا ہی تھا کہ ہم مرنے کے بعد ایسے مقام پر آئیں گے، تو تو نے کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا؟!

آیت اللہ جوادی آملی نے کہا: انبیاء (علیہم السلام) کے بعد عقل کے پاس کوئی حجت نہیں ہے [اور اس پر اللہ کی حجت تمام ہو چکی ہے] لیکن انبیاء سے پہلے اس کے پاس حجت تھی۔ دین کا ثقافتی قطب عقل ہے۔ ایک ملت کی فہم کا قطب اور محور اس کی عقل ہے جو خدا اور انبیاء کے ساتھ حجت کرتی ہے۔ بعض وہم و خیال سے دوچار لوگ ہیں؛ خیال اور گمان کرتے ہیں، اور وہ غافل ہیں؛ نظری عقل فکر [اور سوچ] پر حکومت کرتی ہے؛ تو کیا ممکن ہے کہ کوئی پڑھے لکھے بغیر اور شدید محنت کئے بغیر، عقلمند بن سکتا ہے؟! کیا خلوص نیت کے بغیر کوئی عاقل بن سکتا ہے؟! جو عقل توحید اور نبوت کے بارے سوچ سکتی ہے، ہر جگہ نہیں ملتی۔ چنانچہ عقل شجرۂ طوبیٰ، جو طیّب و طاہر شاخوں کا حامل ہے۔

انھوں نے عقل کی پہلی شاخ نظری عقل اور دوسری شاخ عملی عقل ہے۔ اور اس طرح کی عقل کا حامل "قَوَّام بِالْقِسْطِ" (عدل و انصاف کا قائم رکھنے والا) ہے۔ (1) ایک عقلمند سے کرامت اور وقار کے سوا کچھ اور توقع نہیں کی جاتی۔ عدل اورعقل دو متضاد اشیا‏ء نہیں ہیں۔ عقل کا اتمّ نمونہ امیرالمؤمنین اور ائمہ طاہرین (علیہم السلام) ہیں۔

آیت اللہ العظمٰی عبداللہ جوادی آمُلی نے علماء کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زور دے کر کہا: علمائے کرام جن کے پاس ولایت کی پیروی کا عہدہ ہے، دوسروں سے پہلے اور دوسروں سے زیادہ، تمام علمی علوم اور فلسفیانہ اور اور کلامی و الہیاتی علوم اور درست اور غلط [کی دانش] کی قیادت و انتظام کریں تاکہ یہ عالم آپ کی برکت سے [سعادت و فلاح کے لحاظ سے] اپنے اعلیٰ مقام و مرتبت پر فائز ہو سکے۔

انھوں نے کہا: دنیا کا انتظام آپ علمائے کرام کے کندھے پر ہے۔ آپ پر واجب ہے کہ اسلام کو اچھی طرح سمجھ لیں اور سمجھائیں۔ اسلام کو حوزہ علمیہ کی عقلی اور نقلی جہتوں کے ساتھ پیش کرنا چاہئے۔ کوشش کریں اور اسلام کو عقلی دلیل و برہان کے ساتھ دنیا والوں کے سامنے آشکار کریں اور کوشش کریں کہ اسلام پر عمل کرکے، اس کو برتر و بالاتر مکتب کے طور پر، دنیا کو دکھاؤ۔ چنانچہ عقلیت کا درجہ پہلا ہے۔ جان لیں کہ اگر عقل کو ائمہ (علیہم السلام) سے اخذ نہ کیا جائے تو کہیں اور سے نہیں ملے گی۔

انھوں نے کہا: اگر علماء صاحب علم ہوں تو نظری عقل اور عملی عقل کا انتظام و انصرام کرتے ہں، نہ وہ خود کج روی کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی کو گمراہ کرتے ہیں۔

موصوف نے مزید کہا: دنیا نے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کا تجربہ کیا جو تلخ تھیں؛ خدائے متعال کا یہ ارشاد دنیا کو عقلیت تک پہنچاتا ہے :

"يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا؛

(آل عمران - 64)

کہئے کہ اے کتاب والو! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ ہم عبادت [اور بندگی] نہ کریں اللہ کے سوا کسی اور کی اور کسی شئے کو اس کا شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کچھ لوگ کچھ کو اللہ کے سوا [اپنا] مالک مختار نہ سمجھیں۔ اب اگر یہ لوگ منہ پھرائیں تو تم لوگ کہو کہ گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں"۔ [یعنی یہ کہ] انسانی معاشروں کا بڑا مسئلہ شرک ہے، توحید اور یکتا پرستی کی نفی اور نفس پرستی ہے۔

مرجع تقلید آیت اللہ العظمٰی عبداللہ جوادی آمُلی نے آخر میں زور دے کر کہا: آپ کے اس اجلاس کا نتیجہ یہ ہو کہ دنیا سمجھ لے کہ "لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا؛ اور ہم میں سے کچھ لوگ کچھ کو اللہ کے سوا [اپنا] مالک مختار نہ سمجھیں"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ "قَوَّام بِالْقِسْطِ" کا تذکرہ سورہ نساء کی آیت 135 "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ؛ اے ایمان لانے والو! عدل و انصاف کے قائم رکھنے والے ہو جاؤ" کی طرف اشارہ ہے۔ قَوَّام "قائم" کا صیغۂ مبالغہ ہے، اور وہ وہ ہے جو کسی کام کو قطعی اور مکمل طور پر، قائم کرتا ہے اور اس پر قائم رہتا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .